به مناسبت فرا رسیدن ماه مبارک رمضان مجموعهای از " عکس پروفایل ماه رمضان 1401 " را برای شما کاربران عزیز آماده کرده ایم که مشاهده می کنید.
(جهت دریافت ، با ذکر صلوات روی تصویر کلیک کنید.)
هر شب دو مجلس؛ ۱. سخنرانی در حسینیه ائمه اطهار ع ۲. مراسم احیاء در امام زاده حسن علیه السلام؛ به شرح زیر
رمضان المبارک کے خصوصی وال پیپر کی مکمل رینج (دوسرا حصہ) - +100 رمضان کے خوبصورت مفت وال پیپر (دوسرا حصہ) This collection of Ramadan Wallpapers was collected from Popular Islamic Websites. Ramadan Wallpapers are
در این پست از مجله اینترنتی کمپ آرامش قصد داریم تا «دعای روز سوم ماه رمضان المبارک» را به
اس کرئہ ارض پر مختلف اور متعدد اقوام ومِلل آباد ہیں۔کب سے آباد ہیں ،یہ کوئی صحیح نہیں جانتا ،کب تک آبادیاں قائم رہیں گی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فیصلۂ غیب کیا ہے۔ انسانی تاریخ کے آپ کسی بھی دَور میں چلے جائیے، یہ غاروں کا دَور ہویا جھونپڑیوں یا محلّات کا، کاغذ کا دَور ہو یا دھاتوں یا پتھروں کا، آپ دیکھیں گے کہ ہر دَور میں انسانی تمدن کے انداز بدلے ہیں۔ثقافت کے نئے نئے نقشے قائم ہوئے ہیں۔خیالات میں انقلابات آئے ہیں، اس کے باوجود تاریخِ انسانی کے ہر دَور میں ایک قدرِ مشترک ہر قوم و ملت میں رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ تضادات و اختلافات کے باوجود اورتنوع کے باوصف انسانی شعور نے جب سے آنکھ کھولی ہے، ا س نے ہمیشہ اور ہرحال میں اور ہمہ وقت آزادی کی ستائش کی ہے اور اپنی آزادی کو قائم اورباقی رکھنے کی جہدِ مسلسل اور سعیِ کامل کی ہے۔ اِسی جہدِ مسلسل اور سعیً کامل کا نام تاریخِ انسانی ہے۔ ہندوستان میں جب تحریک آزادی نے جنم لیا اور برطانوی استعمار کے خلاف اہلِ وطن جب صف آرا ہوئے تو اُس وقت تحریکِ آزادی کا بنیادی مقصدیہ تھا کہ برطانوی استعمار اورانگریز کی طاقت کو پاش پاش کردیا جائے اور اُس کی جگہ اپنی حکومت قائم کی جائے۔ اس تحریک میں برصغیر کی تمام قومیں (امتیاز کے بغیر) شریک تھیں۔ اس موقع پر شاعرِ مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال ؒ نے مسلمانوں کی رہ نمائی قرآن کی روشنی میں کی۔ علّامہ اقبال ؒ نے مغرب کے جمہوری نظام کو اسلام کے خلاف سازش قرار دیا۔انھوں نے فرمایا کہ مغرب کا جمہوری نظام استبدادِ ملوکیت کی ایک نقاب پوش شکل ہے ، اس میں نوعِ انسانی کبھی آزادی سے ہم کنار نہیں ہوسکتی۔ دوسرے یہ کہ یہ مغربی اندازِ فکر او رمغربی نظامِ جمہوریت اسلام کی ضد ہے، اس لیے اس میں مسلمان کو وہ آزادی میسر نہیں آسکتی کہ جو اُسے اسلام عطا کرتا ہے۔ اس مغربی نظامِ جمہوریت نے اور اشتراکیت نے یہ آوازہ بلند کیا کہ اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں، اُنھی کو حقِ حکومت پہنچتا ہے، مگر قرآن کریم اِس مفروضے کو باطل قرار دیتا ہے۔ قرآن کے نزدیک کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنا محکوم بنائے۔ اس صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقِ حکومت اگر کسی انسان کو حاصل نہیں ہے تو پھر یہ حق کسے حاصل ہے؟ قرآن انسانوں کی تمدنی زندگی کے لیے نظامِ حکومت ضروری قرار دیتا ہے۔اُس کا کہنا یہ ہے کہ حکومت کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ : ’’وہ اپنے حقِ حکومت میں کسی کو شریک نہیںکرتا‘‘۔اس اساس اور اس بنا پر اُس نے حکم دیا ہے کہ اُس کے سوا کِسی کی محکومیت اختیار نہ کی جائے ۔یہی مُحکم نظامِ حیات ہے ، لیکن اکثر لوگ ا س بات کو نہیں سمجھتے اورانسانی حکومتوں کی ہیئت بدل کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہم نے غلامی کی زنجیریں کاٹ دی ہیں اور آزادی کا سانس لے لیا ہے۔قرآن مجیدواضح الفاظ میں اور ذرّہ برابر ابہام کے بغیر کہتا ہے کہ حکومت اللہ کی کتاب یعنی قرآنِ حکیم کے ذریعے سے قائم ہوگی، جس میں کسی انسان کو دخل نہ ہوگا ،کیوں کہ اللہ اپنے اختیارات کسی کو تفویض نہیں کرتا۔اس حقیقت کی توضیح و تشریح کے لیے ارشادہوا:ترجمہ’’ کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور حاکم کی طلب و جستجو کرو، حالانکہ اُس نے اپنی کتاب نازل کردی ہے کہ جو مفصل ہے۔‘‘ برصغیر کے مسلمان تحریک آزادی میں شریک ہوئے اور اس جدوجہد آزادی میں اس نظریۂ اساس کے ساتھ مستعد و متحرک ہوئے کہ وہ پاکستان قائم کریں گے، جہاں قرآن کی حکومت ہوگی اور اللہ کا قانون نافذ ہوگا۔ اُن کے پاس جذبۂ صادق تھا۔ یہ اُن کا ایمانِ کامل تھا اور اُن کا یقین محکم کہ دنیا کی ہر بڑی طاقت مسلمانان برصغیر کے جوشِ ایمانی کے سامنے زیر ہوگئی اور غیر ملکی استعمار نے ہار مان لی۔یہ عجیب اور حیرت انگیز حقیقت ہے اور کرشمۂ الٰہی کہ پاکستان ٹھیک اُس دن عالم وجود میں آیا اور منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا کہ جس دن 27رمضان المبارک تھا۔بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔ یہ نظامِ الٰہی تھا کہ پاکستان ایسے دن قائم ہوا کہ جو تمام عالم اسلام کے نزدیک مبارک و متبرک ہے اور جس کی عظمت و تقدیس میں پُورا عالم اسلام متفق ہے۔ درحقیقت اللہ کا یہ بڑا اہم فیصلہ تھا، کیوں کہ منشاے الٰہی یہی تھا کہ پاکستان قائم ہو اور اُس میں حکومتِ قرآن قائم ہو۔27۔ رمضان یوم نزول قرآن ہے۔ اس یوم مبارک کے بارے میں قول فیصل ہے اور حرفِ آخر کہ اسلام اور عالمِ اسلام کے لیے یہ تاریخ ساز دن ہے۔ اس دن قرآن کریم نازل ہوا اور اس لیے نازل ہوا کہ ا س کرئہ ارض کی ہر تاریکی کو روشنی سے منور کردے اور ہر باطل کو مٹاکر حق کو قائم کردے اور اس کرئہ ارض پر اللہ کے قانون کی حکمرانی ہو۔ اس باب میں قرآن کے احکامات واضح ہیں۔سورہ المائدہ میں ارشادِ ربانی ہے:ترجمہ ’’جو لوگ کتاب اللہ کے مطابق حکومت قائم نہیں کرتے وہی کافر ہیں۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی رسول اللہ سے فرمایاگیا: ’’ان میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کرو۔‘‘ قرآن کریم میں اللہ کے سِوا ہر طاقت کو طاغُوت کہا گیا ہے او رکفر اور ایمان کے اس فرق کو اِ ن الفاظ میں بیان کردیاگیاہے،ترجمہ: ’’جو اللہ پر ایمان لایا اور اُس نے طاغوت کا انکارکیاتو اُس نے ایسا محکم سررشتہ تھام لیا جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔‘‘ اس ارشادِ باری تعالیٰ کی روشنی میں یہ غور کرنا چاہیے کہ وہ لوگ کہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ کتاب اللہ پر ایمان لائے، لیکن عملاً اُن کا حال یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ، ترجمہ:’’ اپنے مسائل ومُعاملات کے فیصلے طاغوت سے کرائیں، حالانکہ انھیں حکم دیا گیا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں۔‘‘ ایسے لوگ صحیح راہ پر نہیں ہیں۔ وہ ایک سانس میں اللہ کے قانون کی بات کرتے ہیں، مگر دوسرے میں اُس کی نفی کرتے ہیں۔ اُن کا قلب و ایمان متزلزل ہے ،حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ،ترجمہ ’’ اللہ کے کلمات (قوانینِ الٰہی) صدق و عدل کے ساتھ مکمل ہوگئے۔یہ قوانین غیر متبدل ہیں۔‘‘ ٭…٭…٭
رایگان ثبت نام کنید و اولین نفری باشید که از پست های جدید مطلع می شوید.